واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

   

قبلہ عالم  حضرت محمد مراد علی خاں

رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت محمدمرادعلی خاں رحمتہ اللہ علیہ بھارت کےمشہورشہرہوشیارپورکےایک گاؤں پھلائی میں1880ءمیں پیدا ہوئے۔آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کےوالدمحترم کانام حضرت محمدعلی خاںاور والدہ محترمہ کانام عمربی بی تھا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت محمدعلی خاں سے حاصل کی۔جو خود اپنے وقت کے کامل ولی تھے۔ذرابڑے ہوئے تودینی تعلیم کے لئے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے والد صاحب نے قریبی مدرسے میں داخل کروادیا۔ یہاں پرآپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے مولوی اللہ بخش سے تعلیم حاصل کی جو کے مشہور صوفی حضرت بلہے شاہ کے قریبی عزیز تھے۔اس کے بعد آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے والدصاحب نے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو اپنے قصبے کے سکول میں دنیاوی تعلیم کے لئے داخل کروادیا۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   پیدائشی طورپرولی تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

     

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے سکول کے زمانے کا واقعہ بہت زیادہ مشہور ہے کہ دورانِ کلاس کسی بچے کا قلم بنانے والا چاقو گم ہوگیا تو اُس بچے نے کہاکہ میرا چاقو مرادعلی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے نکالا ہے۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے استاد نے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے پوچھا تو آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے جواب دیا کہ میں نے اس بچے کا چاقو نہیں نکالا۔ ماسٹرصاحب نے بغیر تصدیق کیے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو سزا کے طور پر کلاس سے باہر نکال دیا۔اور آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   چھٹی کے وقت تک کلاس سے باہر ہی رہے۔جس راستے سے تمام بچے گھرواپس آیاکرتے تھے وہاں ایک درویش کا ڈیراتھا ۔ بچے وہاں پانی پینے کے لئے رک جاتے تھے۔ وہ تمام بچوں کو خاص طور پر آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے بہت پیارکرتا تھا۔ بچوں نے اس درویش کو بتایا کہ مراد علی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو ماسٹرصاحب نے ایک بچے کا چاقو نکالنے کے الزام میں آج کلاس سے باہرنکال دیاتھاجس کی وجہ سے وہ آج تمام دن کی پڑھائی میں حصہ نہ لے سکے۔ یہ سن کر درویش نے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے منہ پر بغیر سوچے سمجھے ایک تھپڑ ماردیا اور کہا کہ بچوں کے چاقو نکالتے ہو۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   سارا راستہ روتے ہوئے گھرواپس آگئے ۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے والد محترم اور والدہ محترمہ نے رونے کا سبب پوچھا تو آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے سارا ماجرہ بیان کردیا۔ دونوں نے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کوتسلی دی جس سے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے دل کو سکون ملا۔

ابھی آدھی رات ہی گزری تھی کہ وہ درویش آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے دروازے پر آگیا اورآپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے والد صاحب سے درخواست کی کہ آپ اپنے بچے سے کہہ کر مجھے معافی دلوادیں۔ وہ سخت پریشان تھا کہنے لگا روزانہ رات کو میری حضور غوثِ پاک سید عبدالقادر جیلانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے دربار میں حاضری ہوتی ہے اور مجھے اُن کے نزدیک ہی جگہ ملتی ہے لیکن آج دربار تک رسائی نہیں ہورہی تھی۔ پھر حضور غوثِ پاک  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایا کہ تم نے ہمارے ایک صاحبزادے کو تھپڑ مارا ہے۔ جاؤ پہلے اس سے معافی مانگ کر آؤ ۔ میں اس واسطے حاضرہوا ہوں کہ آپ بچے سے کہہ کے مجھے معافی دلوادیں۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے والد محترم نے آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو جگایا اورساری صورتحال بتائی تو آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے اُسی وقت اس درویش کو معاف کردیااور وہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو دعائیں دیتا ہواچلاگیا۔

اس درویش کی جب دوبارہ دربارِ غوثیہ میں رسائی ہوئی تو کیادیکھتا ہے کہ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   حضور غوث پاک  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی گود میں بیٹھے ہوئے سیب کھارہے ہیں اور حضور غوثِ پاک  رحمتہ  اللہ  علیہ   آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے بالوں میں انگلیاں پھیررہے ہیں۔

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے مختلف جگہوں سے ظاہری،دینی اور باطنی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی اللہ بخش،قاری ظہوراحمد،مفتی فتح محمد اور استاد قدرت اللہ دہلوی قابلِ ذکر ہیں۔ آپ نے مولوی فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں اس کے علاوہ آپ نے انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ باطنی طور پر آپ نے حضورِ غوث پاک اور حضرت سیدعبدالرزاق سے فیض حاصل کیا۔ آپ نے خود فرمایا کہ میں پانچ سال کی عمر سے پانچ نمازیں بمعہ تہجدکے باقاعدگی سے ادا کررہا ہوں۔

آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے بہت سارا وقت اپنے مرشدکامل کو تلاش کرنے میں گزارا۔ اسی وجہ سے آپ نے پورے پاک و ہند کا سفر کیالیکن گوہرِمقصود ہاتھ نہ آیا۔ آپ نے سلطان العارفین کے دربار میں حاضری دی۔ اسی طرح آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   گولڑہ شریف بھی گئے اور وہاں چلہ کشی کی لیکن آپ کی تسلی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے کراچی میں بھی دو ماہ گزارے اور منگو پیر کے دربار میں بیٹھ کر چلاکشی کی۔ پھر آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے دربار میں حاضر ہوئے تو وہاں ارشاد ہواکہ گھر واپس جاؤ اور انتظار کرو جلد ہی منزل مل جائے گی۔وہاں سے آپ اجمیر شریف کے لئے روانہ ہوئے اور اجمیر شریف سے لاہور پھرپاک پتن ،پھر چشتیاں سے ہوتے ہوئے واپس اپنےگاؤں  چک نمبر333 واپس آگئے۔ مایوسی کا زمانہ تھا۔ گا ؤں واپس آکر آپ نے اپنے زرعی رقبے کے ساتھ ایک سکول کی بنیاد رکھی جو ماشااللہ آج فریدیہ کالج کی شکل اختیارکرچکا ہے۔

پھر وہ وقت بھی آگیاجس کے انتظار میں آپ نے پورے پاک و ہند کا چکر لگاےا تھا۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے گاؤں میں سالانہ محفلِ میلاد تھی۔ آپ کےگاؤں کے ایک بزرگ جن کو سب میاں جی کہتے تھے اُن کے پیر صاحب حضرت سید اعجازحسین شاہ رحمتہ اللہ علیہ اس محفل کے مہمانِ خصوصی تھے۔ محفل شروع ہوئی تو مہمانِ خصوصی نے میاں جی سے پوچھا کیا سارا گاؤں آیا ہوا ہے۔ تو میاں جی بولے کے حضرت صاحب ایک صاحب مولوی محمد مراد علی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   نہیں آئے کیونکہ یہ وقت ان کی عبادت کا ہوتا ہے۔ مہمانِ خصوصی نے آپ کو بلانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ ایک آدمی آپ کو بلانے کے لئے بھیجاگیا۔ آپ تشریف لے آئے لیکن پنڈال میں بےٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ہر طرف لوگوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ جب آپ کو بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نظر نہ آئی تو آپ پنڈال سے باہر ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ مہمانِ خصوصی حضرت سیداعجازحسین شاہ صاحب  رحمتہ  اللہ  علیہ   جو اپنے وقت کے ولی کامل اور قطب تھے،انہوں نے آپ کو دیکھا اور پکارا مولوی صاحب ہمارے پاس آجائیے۔ آپ پاس آئے تو حضرت سیداعجازحسین شاہ صاحب  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے بڑھ کرآپ کو سینے سے لگالیا۔ عاشق اور معشوق اکٹھے ہوئے تو منظر دیکھنے والا تھا۔ حضرت شاہ صاحب نے کھڑے کھڑے محفل سے خطاب کیا اور کہا کہ میں جس گوہر کی تلاش میں رام پور یوپی سے پنجاب کے اس گاؤں میں آیا ہوں وہ مجھے مل گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ مجھے جو امانت سونپی گئی تھی وہ اصل حقدار کو لوٹارہا ہوں آپ نے حضرت سید اعجاز حسین شاہ صاحب  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسلوب کی منزلیں طے کرتے ہوئے فنافی الشیخ سے فنافی الرسول اور پھر فنافی الرسول سے فنافی اللہ ہوگئے۔

حضرت سید اعجاز حسین شاہ صاحب  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے آپ کو چاروںسلاسل یعنی نقشبندیہ، چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ کی خلافتیں عطا کیں اور اپنا خلیفہ اعظم مقرر فرمایا۔ لوگ جوک در جوک آپ سے فیض حاصل کرنے کے لئے حاضر ہونے لگے ۔ آپ کے مریدانِ حق کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

آخر 14 اگست 1968ءبمطابق19 جمادی الاول1388ھ بروز منگل طلبی کا پیغام آگیا اور پیر کامل حضرت محمد مراد علی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   اس عالم ناپائیدار سے عالم بقاکی طرف کوچ کرگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ آپ کو پنے جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین۔آپ کو صادق آباد ضلع رحیم یار خاں پاکستان میں بعد از دوپہر سپرد خاک کر دیا گیا۔